Header Ads Widget

Monday, May 24, 2021

Don't Remember The Greatness of the Muslims - مسلمانوں کی عظمت رفتہ کو یاد نہیں زندہ کیجئے

In order to cope with any tragedy or tragedy, it is necessary to take off the cloak of emotions. When emotional imbalances prevail, human beings or nations can neither accurately analyze the situation nor move towards a better destination. Let me make this point clear with an example.

مسلمانانِ فلسطین و کشمیر گزشتہ کئی عشروں سے یہودی اور ہندو ریاستی دہشتگردی کا شکار ہیں۔ اعداد وشمار سے عیاں ہے کہ مسلمان تعداد اور اقتصادی وسائل کے اعتبار سے برتری رکھنے کے باوجود مسلسل زیرِ عتاب ہیں۔ اس کی کئی بنیادی وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ مسلم حکمرانوں کی بے حسی اور عامتہ الناس کی جذباتی جبلّت ہے۔


مسلم امہ کےلیے اللہ تعالیٰ نے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے۔ مگر افسوس کہ مسلم حکمران قول و فعل کے تضادات، ذاتی تشہیر، باہمی چپقلشوں، عیش پرستیوں کے علاوہ خبطِ عظمت کا بھی شکار ہوگئے۔ اس تمام قضیہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج عرب و عجم کے حکمرانوں کا وہی حال ہے جو آخری مغل فرمانروا بہادر شاہ ظفر کا تھا۔ ہاتھوں میں سکت نہیں، قدموں میں جسارتِ جنبش نہیں، اور لفاظی میں تاثیر نہیں۔


گرو تو ساتھ گرے شانِ شہسواری بھی

زوال آئے تو پورے کمال میں آئے


مسلم حکمران اپنے آپ سے باہر نکل سکے اور نہ ہی عامتہ الناس کی فکری اور شعوری تربیت کرسکے۔ یہی فکری اور شعوری دیوالیہ پن آج ایک عام مسلمان میں راسخ ہوچکا۔ یقین نہ آئے تو سوشل میڈیا پر عام لوگوں کا فلسطین کی تازہ صورت حال پر احوال ملاحظہ کیجئے۔ کوئی صلاح الدین ایوبی کو پکار رہا ہے، کوئی مسلمانوں کی عمومی صلاحیت پر ماتم برپا کررہا ہے، کوئی عمران خان پر تبرا پڑھ رہا ہے، کوئی ماضی کے ترک حکمرانوں کو یاد کر رہا ہے، اور کوئی عظمتِ رفتہ کی مدھر دھنوں پر محوِ رقصاں ہے۔


عام مسلمانوں اور حکمرانوں کے علاوہ علمائے دین بھی مسلم امہّ کی اس حالتِ زار کے ذمے دار ہیں۔ آج کا عالم اپنی ترجیحات کا درست ادراک کرنے میں مکمل ناکام نظر آتا ہے۔ مختلف مکاتیبِ فکر کے علما عمومی طور پر فکری دیوالیہ پن کا شکار ہوچکے۔ ان کے مباحث محض چند موضوعات تک محود ہوچکے۔ اندازِ تکلم انتہائی سخت اور اپنے مخالفین کےلیے گفتگو کا معیار انتہائی عامیانہ ہوچکا۔ حکمرانوں کی طرح مزاج میں ذاتی تشہیر اور خبطِ عظمت کا جذبہ بھی طشت از بام ہوچکا۔ اور یقیناً علما کی قبیل میں کئی ایسی شخصیات موجود ہیں جو ان تمام علّتوں سے مبرا ہیں۔ لیکن اکثریت کی حالت نا گفتہ بہ ہے۔


کسی بھی سانحے یا المیے سے نبردآزما ہونے کےلیے ضروری ہے کہ جذبات کا پیرہن اتارا جائے۔ جذباتی عدم توازن غالب ہو تو انسان یا اقوام صورتِ حال کا نہ ہی درست تجزیہ کرسکتے ہیں اور نہ ہی کسی بہتر منزل کی جانب گامزن ہوسکتے ہیں۔ ایک مثال سے یہ نقطہ واضح کیے دیتا ہوں۔


دوسری جنگ عظیم کے بعد معاشی اعتبار سے جاپان تقریباً مردہ ہوچکا تھا۔ جاپان کے دو اہم صنعتی شہر صفحہ ہستی سے مٹ چکے تھے۔ اس عظیم سانحے کے بعد جاپانی قوم میں بھی جذبات کا سمندر ٹھاٹیں مار رہا تھا اور پوری قوم امریکا کے خلاف انتقام کی آگ بھڑکا چکی تھی۔ اس نازک مرحلے پر جاپان کی سیاسی قیادت کے درست فیصلوں نے ملک کی کایا پلٹ دی۔ شکست کو تسلیم کیا۔ انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کیا۔ اور اپنی تمام تر توانائیاں تعلیم اور صنعتی شعبوں میں ترقی کےلیے صرف کردیں۔ بالآخر جاپان چند عشروں میں ناصرف اپنے پیروں پر کھڑا ہوا بلکہ ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں آن کھڑا ہوا۔


تعصب کی عینک اتار دی جائے اور ٹھندے دل سے غور کیا جائے کہ مسلم امہ نے گزشتہ ایک صدی کے دوران کیا کیا؟ کبھی ایک سیاسی تحریک چلائی تو کبھی دوسری۔ کوئی تحریک کامیاب ہوئی تو کوئی ناکام۔ ہر تحریک میں عام مسلمانوں کا خون بے دریغ بہا۔ ان تحریکوں نے اپنے بعض مقاصد کو ضرور حاصل کیا۔ لیکن اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو گماں گزرتا ہے مسلمان اوج ثریا پر جانے کے بجائے پستیوں کی جانب رواں دواں رہے۔ اس امر کی وجوہات سادہ سی ہیں۔ نہ کسی سیاسی حکمران نے عوام کی اخلاقی تربیت کی۔ نہ کسی حاکم نے اپنی ترجیحات کو درست کیا۔ بلکہ حکمرانوں نے ازخود تمام سیاسی، سماجی، اخلاقی اور مذہبی روایات کی دھجیاں اڑا دیں۔ اور ان ہی عوامل کی بنیاد پر ایک معاشرہ وجود میں آیا۔ ایک کھوکھلا معاشرہ۔ ہر قسم کی اخلاقیات سے عاری۔


تاریخ کے اوراق بتلاتے ہیں کہ مسلمان دنیا اندرونی خلفشار اور لڑائیوں کا شکار ہوگئی۔ اسی اثناء میں ایک صدی سے زائد عرصہ گزر گیا۔ تمام تر توانائی اندرونی لڑائی میں لگ گئی۔ انہی حماقتوں کے باعث پہلے برطانیوں نے جبروستم کی داستاں رقم کی۔ پھر روس نے۔ اور اب امریکا بہادر ہم پر مسلط ہے۔ امریکا کے بعد اگلا نمبر چین کا ہے۔ تمام قرائن اسی جانب گامزن ہیں۔


مسلمان دنیا میں جب جب ظلم و جبر کا بازار گرم ہوا تو حکمراں طبقے نے انہی اقوام کو مدد کی صدا دی جو ظالموں کی پشت پناہی کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں۔ یعنی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ جسں عطار کے سبب بیمار ہوئے اسی کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں۔ عام مسلمانوں نے اپنے بھائیوں کےلیے دعا کی اور اپنی عظمتِ رفتہ کے قصیدے پڑھے۔ علمائے عرب وعجم نے مظلوم مسلمانوں کےلیے دعا کی اور ظالموں کےلیے بددعا۔ اور اللہ تعالیٰ کی نصرت و امداد کو صدا دی۔ سیاسی لیڈروں اور اقتدار کے ایوانوں نے تقاریر سے اپنا اپنا کام چلایا۔ اور یوں سب نے اپنے تئیں مظلوم کے ساتھ ہمدردی کا حق ادا کردیا۔


مگر اب ایسا چلنے کا نہیں۔ جو کام ہم نے کیے سب کے سب سطحی نوعیت کے ہیں۔ حقیقت سے ان کا دور دور لینا دینا نہیں۔ کسی کی مدد کرنے کےلیے انسان کا اپنا مضبوط ہونا ضروری ہے۔ بصورتِ دیگر مدد محض لفاظی کے سوا کچھ نہیں ہوگی۔ اسی قسم کی مدد فلسطین وکشمیر کے مظلوم عوام آج مسلمانوں سے پا رہے ہیں۔ اپنے کردار کی بہتری اور محنت سے اللہ کی نصرت کو صدا دیں اور پھر دیکھیے دعائیں قبول ہوتی ہیں یا نہیں۔


اللہ تعالیٰ کے ایک فیصلے کو یاد رکھیے۔ اللہ رب العزت کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت خود نہ بدلے۔


پہلے پہل بدلنے کا فیصلہ کیجئے۔ کیا ایسے ہی وقت گزارنا ہے یا اپنی عظمت رفتہ کو بحال کرنا ہے۔ اگر ماضی جیسا عروج حاصل کرنا ہے تو انسان سازی پر توجہ دینا ہوگی۔ آج کے مسلمان کو جدید عصری تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ سیاسی رہنماؤں کو اپنی شخصیت پرستی کے خول کو توڑ کر اقوام کو اعلیٰ اخلاقی اصولوں پر استوار کرنا ہوگا۔ جدید علوم میں مہارت پیدا کرنا ہوگی۔ تعلیمی معیار بلند کرنا ہوگا۔ صحت کے شعبے میں ترقی کو شعار بنانا ہوگا۔ دینی تعلیم کا علم پیشہ ور ملاؤں سے چھین کر ریاست کو خود تھامنا ہوگا۔ مذہبی شدت پسندی کی لعنت کا تدارک کرنا ہوگا۔ مذہبی روادری کو فروغ دینا پڑے گا۔ سب سے بڑھ کر اہم یہ کہ جذباتی جبلّت کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ معاشرے میں عدم برداشت کو ختم کرنا پڑے گا۔ زرعی و صنعتی ترقی کو اپنی ترجیح بنانا ہوگا۔


تعلیمی میدان میں ترقی اقتصادی ترقی کی ضمانت ہے۔ اقتصادی ترقی مضبوط دفاع کی ضمانت ہے۔ اور مضبوط اقتصادی و دفاعی قوت ہی آج ہر قسم کے اندرونی و بیرونی خطرات کا جانفشانی سے مقابلہ کرسکتی ہے۔


حاصلِ کلام یہ ہے۔ مسلم امہ اپنی موجودہ حالت پر ماتم کرنے کے بجائے اپنی ساری توانائی تعلیم اور اقتصادی ترقی پر صرف کرے۔ بتدریج تمام شعبہ ہائے زندگی میں ترقی کو اپنا ہدف بنائے۔ سفر کٹھن بھی ہے اور طویل بھی۔ لیکن مسئلے کا دیرپا حل یہی ہے۔


ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ ماضی کی حیثیت محض ایک قبرستان کی ہے۔ اور یقیناً ہمارے قبرستان میں کئی نادر اور قیمتی لوگ بھی مدفون ہیں اور کئی قیمتی روایات بھی۔ لوگ تو آنے کے نہیں۔ انہیں صدا دینا محض سعیٔ لاحاصل ہے۔ البتہ چند روایات کو زندہ کیا جاسکتا ہے۔ جیسے علم کی کھوئی ہوئی روایت کو آج بھی زندہ کیا جا سکتا ہے۔ بہرکیف اپنے اسلاف کی درخشاں داستانِ شجاعت کو ضرور یاد کیجئے، مگر ماضی میں جینا چھوڑ دیجئے۔ حالتِ آج میں حالتِ کل کے بوج بوئیں۔ اور علامہ اقبال کی اس نصحیت پر بھی ضرور غور کیجئے۔


تھے تو آبا وہ تمھارے ہی، مگر تم کیا ہو

ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو


محمد احمد

بلاگر الیکٹریکل انجینئر، محقق اور پی ایچ ڈی فیلو ہیں۔ اردو اور انگلش زبانوں میں محتلف موضوعات پر لکھنا ان کا مشغلہ ہے۔ آپ آج کل چین کے شہر شنگھائی میں مقیم ہیں۔ فیس بک اور ٹوئٹر پر ان سے @ahmadsjtu کی آئی ڈی پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

No comments:

Post a Comment

مینیو