Header Ads Widget

Wednesday, December 23, 2020

محنت اور تقدیر - Hard Work And Destiny

The question is, how true is the statement that man makes his own destiny? Answer: See, there are two perspectives on this; One is that hard work is nothing, everything is destiny. What is written in destiny, lives together, even if the whole world is against it. The second point is that hard work is real. Man writes his destiny with his own hard work. We understand that these two things are not true at all. However, there is a partial truth in both of them that destiny has its own role and hard work has its own role.

محنت اور تقدیر

سوال ہے کہ یہ جو بات کہی جاتی ہے کہ انسان اپنی تقدیر خود بناتا ہے، اس میں کس قدر حقیقت ہے؟ جواب: دیکھیں، اس بارے دو نقطہ ہائے نظر ہیں؛ ایک یہ ہے کہ محنت کچھ نہیں ہے، سب کچھ تقدیر ہی تقدیر ہے۔ جو تقدیر میں لکھا ہے، مل کر رہتا ہے، بھلے ساری دنیا مخالف ہو۔ دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اصل محنت ہی ہے۔ انسان اپنی محنت سے ہی اپنی تقدیر لکھتا ہے۔ ہمیں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ دونوں باتیں کل حقیقت نہیں ہیں البتہ ان دونوں میں جزوی صداقت موجود ہے کہ تقدیر کا اپنا رول ہے اور محنت کا اپنا کردار ہے۔

سادہ سی مثال سے اگر سمجھیں تو ہمارے بچپن میں شادی بیاہ کے موقع پر ایک رسم ہوتی تھی کہ جب دولہن کو ڈولی یا گاڑی وغیرہ میں بٹھایا جاتا تو اس کی ڈولی یا گاڑی پر سکے پھینکے یا اچھالے جاتے تھے۔ اب کچھ بچے ایسے ہوتے تھے کہ جن کے ہاتھ میں سیدھا کچھ سکے آ جاتے تھے۔ اور کچھ ایسے ہوتے تھے تج دھکم پیل کر کے زمین پر گرے ہوئے سکے چن پاتے تھے۔ اور کچھ ایسے ہوتے تھے کہ جو دھکم پیل اور محنت کے باوجود کوئی سکہ حاصل نہ کر پاتے تھے۔

تو ہمیں یہ بات سمجھ آتی ہے کہ اللہ عزوجل نے اس دنیا کو یونہی سکوں کی طرح پھینک دیا ہے۔ تو یہ دنیا کسی کے ہاتھ بغیر محنت کے لگ گئی جیسا کہ کوئی رائیل فیملی میں پیدا ہو گیا یا کسی ایسے گھرانے میں کہ اس کے باپ کے مربعے تھے یا کسی کا کاروبار بغیر محنت ہی چل پڑا وغیرہ وغیرہ۔ اور کچھ ایسے ہیں کہ جنہوں نے محنت کر کے دنیا میں کچھ مقام بنایا ہے یا حاصل کیا ہے۔ ایسی مثالیں بھی ہمارے ارد گرد عام ہیں۔ اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ جنہوں نے محنت کی ہے لیکن ان کی محنت ضائع چلی گئی یا رنگ نہ لائی۔ یہ مثالیں بھی عام ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ حدیث میں ہمیں محنت کرنے کا کہا گیا ہے کہ آپ اپنے حصے کی محنت کریں۔ باقی اس محنت کا صلہ ملے گا یا نہیں تو یہ تقدیر ہے۔ کبھی مل جاتا ہے اور کبھی نہیں ملتا اور کبھی بغیر محنت کے کچھ مل جاتا ہے۔ ابھی چند دن پہلے ہی چنگیز خان کی بائیوگرافی دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس کی زندگی میں کئی ایک مراحل ایسے ہیں کہ وہ موت کے منہ سے بال بال بچا ہے یعنی اس کی زندگی ایک عام سے انسان کی زندگی معلوم ہوتی ہے جو پیدا ہوتے ہیں اور کیڑوں مکوڑوں کی طرح مر کھپ جاتے ہیں۔ بس تقدیر کے علاوہ کوئی فیکٹر نظر ہی نہیں آتا کہ جس نے اس سے وہ کام لیا ہو جو وہ کر گیا ہے۔

تو چنگیز خان کیا، کسی بھی بڑے آدمی کے حالات زندگی اٹھا کر دیکھ لیجیے کہ جن حالات میں اس نے جو کام کیا ہے، اسے تقدیر کے بغیر جسٹیفائی کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ کام کیسے ہو گیا۔ اپنی زندگی بچانے کے لیے مارا مارا پھرنے والا آدھی دنیا پر حکومت کرنے لگ گیا۔ تو محنت سب کچھ نہیں ہے، یہ بات تو واضح ہے۔ اور محنت سے بھی ملتا ہے، یہ بات بھی واضح ہے۔ اور دنیا کے لیے کی گئی محنت ضائع ہو جاتی ہے، یہ بھی واضح ہے۔

بس اللہ عزوجل کے نزدیک اس دنیا کی حیثیت ہی اتنی تھی کہ اس نے سکوں کی طرح اس کو پھینک دیا ہے، یہ لحاظ کیے بغیر کہ کسی کو بغیر محنت کے مل جائے گی، کسی کو محنت سے اور کسی کو محنت کے بعد بھی نہ ملے گی۔ البتہ آخرت کے لیے انسان سبحان اللہ بھی کہے گا تو وہ ضائع نہیں ہو گا۔ یہ اصول ہمارے دین نے بتلا دیا ہے۔

No comments:

Post a Comment

مینیو