Header Ads Widget

Thursday, December 24, 2020

بسم اللہ۔ آج کی آیت وہ آیت ہے

 There comes a time when someone tells us not to cry, it will get better and your heart wants to ask him if Allah Almighty could have done good to us even in our beloved thing. Everything was in the hands of Allah Almighty. Then why did he do that? Sometimes it doesn't matter. The grief is so great that it just becomes important, I wish Allah Almighty would not do that. I wish he didn't do that.

بسم اللہ۔ 

آج کی آیت وہ آیت ہے جس کو برسوں سے ہم کتابوں، لیکچرز، ناولز، دروس، اور نصیحتوں میں پڑھتے اور سنتے آرہے ہیں۔ “ہوسکتا ہے کہ تمہیں ایک چیز ناپسند ہو اور اس میں تمہارے لیے خیر ہو۔ اور ہوسکتا ہے کہ تمہیں ایک چیز پسند ہو اور اس میں تمہارے لیے شر ہو۔ اور اللہ جانتا ہے اورتم نہیں جانتے۔” 

جس نے قرآن نہیں پڑھا اس کو بھی یہ اصول بچپن سے مسلمان گھرانے میں سکھادیا جاتا ہے کہ اللہ کے ہرکام میں بہتری ہوتی ہے ۔دعا قبول نہیں ہوئی؟اس میں بہتری ہوگی۔کوئی محبوب چیز نہیں ملی۔ اس میں کوئی مصلحت ہوگی۔ جو چاہیے تھا وہ نہیں ہوا بلکہ کچھ برا ہوگیا؟یہی آپ کے حق میں اچھا ہوگا بس رونا مت ڈالو اور صبر کر لو۔ یہ آیت ہمیں اتنی دفعہ سمجھائی جاتی ہے، زندگی کے مشکل مرحلوں پہ نصیحت کی طرح گھول کے پلائی جاتی ہے کہ ہم اس کو سن سن کے عادی ہوچکے ہیں۔ اب یہ دل پہ یوں اثر نہیں کرتی۔ کیونکہ جو ہمیں چاہیے تھا، وہ اتنے برس بعد بھی ہمیں اپنے حق میں اچھا ہی محسوس ہوتا ہے۔ اور جو غلط ہمارے ساتھ ہوا، اس میں بھی اتنے عرصے بعد کوئی خیر نہیں نظر آئی۔ ہمیں نہیں لگتا کہ کسی شے کے نہ ملنے میں کوئی بہتری تھی۔ 

ایک وقت آتا ہے جب کوئی ہمیں کہتا ہے کہ روؤ مت، اسی میں بہتری ہوگی اور آپ کا دل چاہتا ہے کہ اس سے پوچھیں کہ اللہ تعالی چاہتا تو ہماری محبوب شے میں بھی ہمارے لیے خیر ڈال سکتا تھا۔ اللہ تعالی کے ہاتھ میں تھا سب۔ پھر اس نے ایسا کیوں کیا؟ بعض دفعہ کیوں بھی اہم نہیں رہتا۔ غم اتنا بڑا ہوتا ہے کہ بس یہی اہم ہو جاتاہے، کہ کاش اللہ تعالی ایسا نہ کرتا۔ کاش وہ یوں نہیں یوں کر دیتا۔ 

آج اس آیت کو دوبارہ پڑھتے ہوئے میں سوچ رہی تھی کہ اب یہ میرے دل پہ ویسے اثر کیوں نہیں کرتی جیسے برسوں پہلے کرتی تھی؟ پھر میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس آیت کو واپس اس کے اصل مطلب کے ساتھ پڑھا جائے اور “جو ہوا ہے اس میں بہتری ہوگی” اس کا مطلب نہیں ہے۔ یہ تو اس کامفہوم ہے اور بالکل ٹھیک ہے۔ لیکن قرآن کو اس کے روٹ ورڈ کے ساتھ پڑھنا اس لیے ضروری ہے کیونکہ یہ آپ پہ سوچ کے نئے دروازے کھولتا ہے۔ 

یہ آیت کچھ یوں ہے کہ “ہو سکتا ہے تمہیں ایک چیز ناپسند ہو...” بس یہیں پہ رک جائیں۔ یہاں “ہوسکتا” ہے کے لیے “عسی” کا لفظ آیا ہے۔ عسی امید کے معنی میں استعمال  ہوتا ہے۔ جیسے “ہوپ فلی” کہتے ہیں انگلش میں۔ اس لفظ میں ایک امید کا تاثر ہے کہ جس طرح اللہ نے تمہیں ڈیزائن کیا ہے اور تمہارے حالات ڈیزائن کیے ہیں، اس سب کو دیکھ کے، اور تمہیں دیے گئے حالات کو دیکھ کے، اور تمہاری کمزوریوں کو دیکھ کے امید ہے کہ تمہیں کوئی ایک چیز ناپسند آئے گی۔ ناپسند کے لیے “تکرہو” کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یہ کرہ سے نکلاہےیعنی کہ کراہت۔ 

کراہت کرنا کیا ہوتا ہے؟ یہ ناپسندیدگی سے بڑی چیز ہوتی ہے۔ کچھ چیزیں آپ کو ناپسند ہوتی ہیں جیسے چنا چاٹ میں ٹماٹر۔ آپ ان کو چمچ سے الگ کرتے جاتے ہیں۔ (سوری روزے میں یہی یاد آتا ہے)۔ آپ کو ان کو دیکھ کے ابکائی نہیں آتی۔ بس ناپسند ہیں۔ کچھ چیزیں کراہت آمیز ہوتی ہیں جیسے آلودہ ڈائیپرز۔ چاہے اپنا بچہ بھی ہو لیکن اس کی اسمیل تک سے کراہت ہوتی ہے۔ آپ اس کو ہاتھ نہیں لگانا چاہتے۔ آپ اس سے دور بھاگنا چاہتے ہیں اور اگر ایسی شے کو چھونا پڑے تو دو انگلیوں کے کناروں سے پکڑ کے جلدی سے پھینک دیتے ہیں اور خودکو رگڑ رگڑ کے صاف کرتے ہیں تاکہ اس شے کی ہرچھائیں بھی آپ کے اوپر نہ رہے۔ کراہت جن چیزوں سے ہوتی ہے ان میں ہم ہاتھ تک نہیں ڈالنا چاہتے۔ ان سے ہم دور سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ کراہت آمیز چیزوں کی ظاہری حالت بھی اچھی نہیں ہوتی۔ ان کو دیکھنا بھی طبیعت پہ بوجھ ڈالتا ہے۔ یہاں نفرت کی بات نہیں ہو رہی۔ یہاں کراہت کی بات ہو رہی ہے۔ وہ چیزیں جن کو آپ چھونا بھی نہیں چاہتے امید ہے کہ اس میں اللہ نے آپ کے لیے خیر رکھی ہوگی۔ 

اور وہ کوئی شے جس سے آپ کو محبت ہو گی، اس میں اللہ نے آپ کے لیے شر رکھا ہوگا۔ یہاں محبت کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ محبت کیا ہوتی ہے؟ کوئی شے اتنی دل کو بھا جائے کہ اس کی طرف انسان کھنچا چلا جائے۔ محبت دل کے کسی کی طرف کھنچنے کا نام ہے۔ کوئی شے دل کو اتنی خوبصورت محسوس ہو کہ دل اس کے آگے بے بس ہو جائے۔انسان جب کسی کی طرف کھنچتا ہے تو اس سے قریب ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ جو شے دل کو بھاتی ہے دل اسے مانگنے لگتا ہے۔ دل ہاتھ بڑھا کے اس کو چھونے کا کہتا ہے۔ 

یہ شے کراہت کے بالکل متضاد ہے۔ کراہت آمیز کام میں ہاتھ ڈالنے کا دل نہیں چاہتا۔ اور محبوب کام کی طرف دل خودبخود کھنچا چلا جاتا ہے۔ ہم اس آیت کو صرف اپنے ساتھ ہوئے اچھے یا برے حالات کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ یا کسی ایسی دعا یا شخص کے تناظر میں جو ہمیں نہ ملا ہو۔ یا جب کسی انسان یا چیز کو ہم سے چھین لیا گیا ہو۔ یہ بھی درست ہے۔ لیکن اس آیت کا ایک اور اینگل بھی ہے۔ ان الفاظ سے پہلے یہ فرمایا گیا ہے کہ “تم پہ قتال (جنگ کے تناظر میں) فرض کیا گیا ہے اور وہ ایسی شے ہے جس سے تم کراہت کرتے ہو۔ “

اگر اس بات کو نظر میں رکھ کے آپ اس آیت کو پڑھیں تو کچھ یوں بن جاتی ہے کہ “تم پہ قتال فرض کیا گیا ہے اور وہ تمہارے لیے ناپسندیدہ ہے۔ اور ہوسکتا ہے کہ کوئی شے تمہیں ناپسند ہو اور اس میں خیر ہو تمہارے لیے۔ اور ہو سکتا ہے کہ کوئی شے تمہیں پسند ہو اور اس میں شر ہو تمہارے لیے۔ اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ “

اب اس آیت کو اس کے لفظی معانی کے ساتھ پڑھیں تو کیا سینس بنتی ہے؟ تم پہ قتال فرض ہے اور تم اس سے کراہت کرتے ہو۔ کچھ چیزوں سے تمہیں کراہت آتی ہے، تم ان میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہتے، ان سے بچ کے نکلنا چاہتے ہو، ان کے قریب سے بھی نہیں گزرنا چاہتے، کیونکہ تمہیں لگتا ہے یہ تمہارے ہاتھوں کو خراب کردے گی۔ اس سے تمہارے اوپر برا اثر پڑے گا۔ تمہیں کچھ کام مشکل لگتے ہیں ، بوجھ لگتے ہیں لیکن اللہ نے ان میں تمہارے لیے خیر رکھی ہوتی ہے۔ جیسے ماں باپ کی خدمت، کسی بیمار کی خدمت، کسی کے مسئلے میں اس کی مدد کرنا باوجود اس کے کہ اپنے اوپر بات آنے کا بھی اندیشہ ہو، اپنی قربانی دے کر کسی کی مدد کرنا، اپنے حق کے لیے لڑنا بہت سوں کو ناراض کر کے....اور سب سے بڑھ کے...محنت کرنا۔ پڑھائی ہو یا جاب محنت کے بغیر کچھ نہیں ملتا اور اس کا دل ہی نہیں چاہتا۔ دل محنت سے بے زار رہتا ہے۔ 

اس کے برعکس جن کاموں کا دل چاہتا ہے، جن کے قریب جانے کے لیے دل ہمکتا ہے ، ان میں وقت کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ وہ آسان کام ہوتے ہیں۔ شیطان ان کو خوبصورت بنا کے دکھاتا ہے۔ دل ان کی طرف کھنچتا ہے۔ ان کی طرف ہاتھ بڑھتے ہیں۔ کیونکہ وہ دلفریب ہوتے ہیں۔ ان میں یوں معلوم ہوتا ہے کہ سکون ہے۔ لیکن اصل میں ان میں شر ہوتا ہے۔ ہم نہیں جانتے۔ اللہ جانتا ہے۔ اس آیت میں اللہ نے ایک فرض کام سے بات کا آغاز کیا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم اگلی آیت کو اللہ کے احکامات کی مناسبت سے بھی لے سکتے ہیں۔ 

اللہ کے کچھ احکامات کے لیے ہمارا دل نہیں چاہتا۔ آج بیٹھ کے سوچیں کہ وہ کیا کام ہیں جو اللہ نے فرض کیے ہیں مگر ہمارا دل نہیں چاہتا۔ ماں آواز دے تو اپنی مصروفیت چھوڑ کے پہلی آواز پہ ان کی طرف لپک کے جانے کا دل کیوں نہیں چاہتا؟ دل ان چیزوں میں کیوں اٹکا ہے جن میں وقت کا ضیاع ہے ، اخلاق کی تباہی ہے اور بذات خود شر ہے؟

نمرہ احمد

( رمضان تدبر قرآن)

No comments:

Post a Comment

مینیو